حضورؐ اقدس زمانے بھر سے گۓ تھے جو تیرگی مٹا کر اسی بھیانک فضا میں پھر رک گیا ہے یہ کاروان آکر
یہ زر کے بندے ترے دفینوں پہ ناگ بن کر ڈٹے ہوۓ ہیں وہ خودکشی کر رہے ہیں مفلس حیات کا آسرا نہ پا کر
غریب اور بے نوا کے اے دستگیر اندھیر ہورہا ہے کہ فخر کرتے ہیں تیرے درسِ عمل کی یہ دھجیاں اڑا کر
مذاق اڑاتے ہیں، جو اخوت کا نام بھی آج لے رہا ہو یہ اپنی اغراض کے لیے بیچتے ہیں اسلام کو چھپا کر
جو نام لے حق کا اس کی گردن میں کفر کا طوق باندھتے ہیں جو راستی پر چلے اسے چھوڑتے ہیں مرغِ قفس بنا کر
اسی تعدی کے روکنے کو جہاں میں بعثت ہوئی تھی تیری اسی طرح لوٹتے ہیں پھر مفلسوں کو سرمایہ دار آکر
میں کچھ ہوں تیرا ہی نام لیوا ہوں میری گردن نہ جھک سکے گی میں تیرے درسِ حیات کا ساتھ دوں گا ہر چیز کو لٹا کر