ہمارا سربھی درِ مدینہ کرم سے اپنے جھکا بھی دیجۓ بلائیں گےکب ہم عاصیوں کو بس اتنا آقا بتا بھی دیجۓ
تڑپ رہےہیں سسک رہے ہیں تمہاری نظرِ کرم کی خاطر جو ہم سےاب تک ہوئی ہیں سرزد وہ سب خطائیں مٹا بھی دیجۓ
یہ زندگی مختصربہت ہے سیاہی قسمت کی بام پر ہے میری نظر کوکسی طرح اب وہ نوری جلوۓ دکھابھی دیجۓ
ہے موج زن بے کلی کا دریا میری آنکھوں میں شاہِ بطحا خدارا اپنے کرم سے آقا یہ فاصلے اب گھٹا بھی دیجۓ
ادھر ہیں آتے ادھر ہیں جاتے مہینے حج کے گذر ہیں جاتے عجیب ہے کشمکش میں عشرتؔ یہ بگڑی قسمت بنا بھی دیجۓ