ہم کو اپنی طلب کے سوا چاہۓ آپ جیسےہیں ویسی عطا چاہۓ
کیوں کہیں یہ عطا وہ عطا چاہۓ آپ کوعلم ہے ہم کو کیا چاہۓ
اک اقدس بھی نہ ہم چل سکیں گےحضور ہر قدم پر کرم آپ کا چاہۓ
آستان حبیب خدا چاہۓ اورکیاہم کواس کےسواچاہۓ
آپ اپنی غلامی کی دےدیں سند بس یہی عزت و مرتبہ چاہۓ
اپنے قدموں کا دھوون عطا کیجۓ ہم مریضوں کو آب شفا چاہۓ
سبز گنبد کی ہمسائیگی بخش دے یہ مسلسل کرم اے خدا چاہۓ حشر کی چلچلاتی ہوئی دھوپ میں ان کے دامن کی ٹھنڈی ہوا چاہۓ
اور کوئی بھی اپنی تمنا نہیں ان کے پیاروں کی پیاری ادا چاہۓ