حکمِ یزداں سے ملا، اذنِ پیمبر سے ملا مجھ کو مدحت کا ہنر، میرے مقدر سے ملا
کب سے اس خانۃ آفت میں مقیدی تھی میں اور ایسے میں بلاوا مجھے اس در سے ملا
جلد لے چل مجھے اے شوقِ سفر ان کی طرف میرے ہادیؐ، مرے آقاؐ، مرے رہبر سے ملا
قُلزمِ اشک بہاتی ہوئی پہنچوں گی وہاں اک اشارہ جو مجھے روضۃ انور سے ملا
ایک اک بوند سے سو پیاس بجھالوں گی میں جوں ہی اک جام مجھے ساقیِ کوثر سے ملا
رمزِ تخلیق جہاں، خلقتِ احمد میں نہاں کُن کا مفہوم اسی چہرۃ انور سے ملا
از ازل تا بہ ابد، راہ ہدایت ہے کھلی سارا منشور اسی نور کے منبر سے ملا
لکھ سکا کون سرِ عرش ملاقات کا حال شبِ معراج خدا اپنے ہی دلبرؐ سے ملا
اے مرے خواب دکھا نقشِ کفِ پاۓ رسولؐ اے مری نیند کبھی روحِ منور سے ملا
ات زمانے، تو مجھے روندکے رکھ دے لیکن میرے خاشاک کو اس حسنِ گل تر سے ملا
عصر حاضر کے سوالات کی زد پر ہے یہ عقل آگہی مجھ کو اسی علم کے دفتر سے ملا
زخم کھا کھا کے دعائیں تھیں لبوں پر جسؐ کے راہِ طائف مجھے اس صبر کے پیکر سے ملا
دیں کی تلقین کا آغاز ہوا تھا جس جا اوجِ فاراں مجھے اس شام کے منظر سے ملا
انؐ کی امت میں رکھا بختِ رسا نے مجھ کو مجھ کو یہ اوج و شرف میرے مقدر سے ملا