ہو مدینے کا ٹِکَٹ مجھ کو عطا داتا پیا آپ کو خواجہ پِیا کا واسِطہ داتا پیا
مجھ کو رَمضانِ مدینہ کی زیارت ہو نصیب خرچ ہو راہِ مدینہ کا عطا داتا پیا
دو نہ دو مرضی تمہاری تم مدینے کا ٹِکَٹ میں پکارے جاؤں گا داتا پِیا داتا پیا
دولتِ دنیا کا سائل بن کے میں آیا نہیں مجھ کو دیوانہ مدینے کا بنا داتا پیا
کاش میں رویا کروں عشقِ رسولِ پاک میں سوز دو ایسا پئے احمد رضا داتا پیا
غم مجھے میٹھے مدینے کا عطا کر دو شہا میرا سینہ بھی مدینہ دو بنا داتا پیا
میٹھے میٹھے مصطَفٰے کی بارگاہِ پاک میں کیجئے میری سِفارش آپ یا داتا پیا
گو ذلیل وخوار ہوں پاپی ہوں میں بدکار ہوں آپ کا ہوں آپ کا ہوں آپ کا داتا پیا
آرزو ہے موت آئے گنبدِ خَضرا تلے ہاتھ اٹھا کر کیجئے حق سے دعا داتا پیا
میں ہوں عصیاں کا مریض اور تم طبیبِ عاصِیاں ہو عطا مجھ کو گناہوں کی دوا داتا پیا
آپ کی چشمِ کرم ہو جائے گر بدحال پر دُور ہو غم کی ابھی کالی گھٹا داتا پیا
کیا غَرَض دردر پھروں میں بھیک لینے کیلئے ہے سلامت آستانہ آپ کا داتا پیا
جھو لیاں بھر بھر کے لے جا تے ہیں منگتے رات دن ہو مِری اُمّید کا گلشن ہرا داتا پیا
مجھ کو داتا تاجدارانِ جہاں سے کیا غَرَض میں تو ہوں منگتا ترے دربار کا داتا پیا
اُجڑے گھر آباد ہوں اور غم کے مارے شادہوں ہو ترے ہر ایک منگتے کا بھلا داتا پیا
دُم دبا کر بھا گ جائے شَیر بھی گر دیکھ لے آپ کے دربار کا کُتّا شہا داتا پیا
کا ش! پھر لاہور میں نیکی کی دعوت عام ہو فیض کا دریا بہا دو سرورا داتا پیا
مسجِدیں آباد ہوں اور سنّتیں بھی عام ہوں! فیض کا دریا بہا دو سرورا داتا پیا
سارے منگتے اپنے چِہرے پر سجا ئیں داڑھیاں فیض کا دریا بہا دو سرورا داتا پیا
تختِ شاہی کی نہیں ہے آرزو عطارؔ کو اِس کو بس کُتّا بنالو اپنا یا داتا پیا