ہو گیا حاجِیوں کا شُروع اب شُمار اِذن مجھ کو بھی دے دو شہِ ذی وقار
تیری نظرِ کرم کا ہوں اُمّیدوار گو مِرے جُرم سرکار ہیں بے شمار
پھر مدینے کی جانب چلے قافلے ہو گئے عاشِقانِ نبی بے قرار
از پئے غوثِ اعظم نگاہِ کرم پھر دکھا دو مدینے کے لَیل و نَہار
میرے میٹھے مدینے کی کیا بات ہے ہے فَضا مہکی مہکی ہوا خوشگوار
جس قَدَر بھی ہیں اسلامی بھائی بہن سب کو بُلواؤ محبوبِ پروردگار
عَرش پر فرش پر خُلد پر خَلق پر اذنِ رب سے ہے نافِذ ترا اقتِدار
کیجئے دُور دنیا کے رنج و اَلَم آپ پر میرے حالات ہیں آشکار
میرے نزدیک آئے نہ پت جھڑ کبھی تاجدارِ مدینہ دو ایسی بہار
پھنس گئی ناؤ عِصیاں کے طوفان میں اب لگا دو مِرے ناخدا جلد پار
میرے دامانِ تَر کی شفیعُ الورٰی لاج رکھنا خدارا بَروزِ شمار
سنّتوں کا میں چرچا کروں رات دن ہو عطا ایسا جذبہ پئے چاریار
اے مدینے کے زائر درِ پاک پر عرض کرنا مِرا بھی سلام اشکبار
پیرومرشِد کے صدقے ہو ایسی عطا آئے عطارؔ دربار میں باربار