ہزار پیش کروں تجھ کو میں سلام ہوا کہ میرے نام بھی آیا کوئی پیغام ہوا
میں خاکِ طیبہ کو آنکھوں میں بھر کے آیا ہوں اسی لیے مرا کرتی ہے احترام ہوا
کھلاۓ جاتی ہے شاخوں پہ پھول مدحت کے جو آرہی ہے مدینے سے صبح و شام ہوا
یہ جب سے گنبدِ خضریٰ کو چھو کے آئی ہے کہیں رکوع کرے ہے کہیں قیام ہوا
تیری تو شہرِ مقدس سے پے شناسائی پلا مجھے بھی حضوری کا ایک جام ہوا