ہر وقت تصور میں میرے ہیں مست گھٹائیں طیبہ کی رہتی ہیں نگاہوں میں ہر دم پرنور فضائیں طیبہ کی
حالات کے زنداں میں جب بھی محسوس گھٹن میں کرتا ہوں آ جاتی ہیں تسکیں دینے کو پر سرد ہوائیں طیبہ کی
محروم نہیں رہتا کوئی ہر ایک کا دامن بھرتا ہے ملتی ہیں مرادیں منہ مانگی ہیں عام عطائیں طیبہ کی
طیبہ سے آنے والوں سےہے عرض میری بس اتنی سی دو گھڑیاں رک جائیں اور ہمیں کوئی بات سنائیں طیبہ کی
ہے عدل یہاں انصاف یہاں ہے رحم یہاں ہے پیار یہاں اللہ غنی انسان پہ ہیں کیا کیا یہ عطائیں طیبہ کی
کیوں سامنے میرے کرتے ہو رنگینئ جنت کی باتیں جنت تو یہاں خود آ آ کر لیتی ہے بلائیں طیبہ کی
اب دیکھۓ گنبدِ خضریٰ کی کب مجھ کو زیارت ہوتی ہے رو رو کر میں نے اے افضل مانگی ہیں دعائیں طیبہ کی