دلوں سے ہوکے گزرتا ہوا مدینے کو نظر سے جاتا ہے اک راستہ مدینہ کو
میں اس کے ساتھ تصور میں چلتا جاتا ہوں روانہ ہوتا ہے جو قافلہ مدینے کو
ہزار حسرت و ارماں کے ساتھ دیکھتا ہے مری نگاہ کا ہر زاویہ مدینے کو
بدن کا دشت سُلگتا تھا ایک مدت سے میں کہہ کے رو پڑا کالی گھٹا مدینے کو
مجھے سکون کی دولت نصیب ہوتی ہے میں بھیجتا ہوں جو کوئی دعا مدینے کو
خیال و خواب میں دل میں نگاہ میں نصرتؔ سجاۓ پھرتا ہوں میں جا بجا مدینے کو