دِلا غافل نہ ہو یک دم ایہہ دُنیا چھوڑ جانا ہے باغیچے چھوڑ کر خالی زمیں اندر سمانا ہے
تیرا نازک بدن بھائی جو لیٹے سیج پھولوں پر ہووےگا ایک دن مردا جو کیڑے نے کھانا ہے
نہ بیلی ہوسکے بھائی نہ بیٹا باپ تے مائی کیوں پھرنا ایں سودائی عمل نے کام آنا ہے
فرشتہ روز کرتا ہے منادی چار کونوں پر محلاں اچیاں والے تیرا گوریں ٹھکانا ہے
جہاں کے شغل میں شاغل خدا کی یاد سے غافل کریں دعویٰ کہ میرا دائم ٹھکانہ ہے
اَجل کےروز کو کر یاد کر سامان چلنے کا زمیں کی خاک پر سونا اینٹوں کا سرہانہ ہے
عزیزا یاد کر وہ دن جو مَلکُ الموت آوے گا نہ جاوے ساتھ کوئی اکیلا تُو نے جانا ہے