دیکھا خدا نے خود کو،جنہیں رکھ کے سامنے پاتا ہے خود کوکون انہیں پاکے سامنے
اُمّی تو کہتےہیں سبھی، یہ دیکھتے نہیں دُنیا کا علم کتنا ہے آقا کے سامنے
ملتا ہے سب کچھ ان کے وسیلے سے خلق کو دیتا ہے ورنہ کس کو خدا اکے سامنے
ہوتے بشر تو جاتے نہ قوسین تک حضورؐ جاتا ہے صرف نور ہی میدا کے سامنے
یوسف کا حسن دیکھ کر کچھ ینگلیاں کٹیں بے دیکھے کٹ رہے ہیں سر،آقا کے سامنے
آئینہ گر کی ذات پہ پڑتی نہیں نظر رکھے ہیں ایسے آئینے پھیلا کے سامنے
کعبے کی سمت لاکھ سر بندگی جھکے دل تو جھکے گا والئ کوبہ کے سامنے
ہر ذرہ جلوہ گاہ ہے نور نبی کا شوق کیا شے ہے طور، ارضِ مدینہ کے سامنے