در نبی پہ پڑا رہوں گا پڑے ہی رہنے سے کام ہوگا کبھی تو قسمت کھلے گی میری کبھی تو میرا سلام ہوگا
اس توقع پہ جی رہاہوں یہی تمنا جلا رہی ہے نگاہِ لطف و کرم نہ ہوگی تو مجھ کو جیناحرام ہوگا
یہاں نہ مقصد ملا تو کیا ہےوہاں ملےگا طفیل حضرت ہمارا مطلب ہوا دھرا ہے نہ صبح ہوگا تو شام ہوگا
دیارِ رحمت پہ ہوگا قبضہ انہیں کاہرسو بجے گا ڈنکا جو حشر ہوگا تودیکھ لینا انہیں کا سب انتظار ہوگا
شفیع محشر لقب ہےان کااسے شفاعت سےکام ہوگا ہےسب کا دارومدار اس پر وہی مدارالمہام ہوگا
خلافِ معشوق کچھ ہوا ہےنہ کوئی عاشق سےکام ہوگا خدا بھی ہوگا اُدھر ہی اے دل جدھر وہ عالی مقام ہوگا
ہوئی جو کوثر پہ باریابی توکیفؔ میکش کی دھج یہ ہوگی بغل میں مینا نظر میں ساقی خوشی سے ہاتھوں میں جام ہوگا