چاند سورج کی بھلا اس کو ضرورت کیا ہے میرے آقاؐ کے لیے لفظِ عقیدت کیا ہے
پھول بے چین ہیں راہوں میں بکھرنے کے لیے تتلیاں پوچھتی پھرتی ہیں عبادت کیا ہے
اس کے پاؤں سے لہو رستا ہے دیکھو تو ذرا پھر بھی وہ سب کو دعا دیتا ہے عظمت کیا ہے
ہم نہ کر پاۓ کبھی آپؐ کے فرماں پہ عمل ورنہ امت کے لیے حرفِ ندامت کیا ہے
چاند ہو تارے ہوں اشجار ہوں یا ہم انساں ذرہ ذرہ ہے گواہ اس کا شہادت کیا ہے
چاہے وہ عرش پہ جاۓ کہ مدینے میں رہے دنیا والو! تمہیں اس بات پہ حیرت کیا ہے
جو کہا رب نے، ہوا اس کے عمل می ظاہر خود ہے وہ اس کی رضا، بارِ امانت کیا ہے
چار سو مکہ، مدینہ کی فضا میں زیبی پیار ہی پیار ہے ہر سمت عنایت کیا ہے