بِالیقیں اُس کو تو جینے کا قرینہ آگیا جس کے لب پر ہر گھڑی ذکرِ مدینہ آگیا
ساحِلِ جَدَّہ پہ لو اپنا سفینہ آگیا جھوم جاؤ عاشِقو! میٹھا مدینہ آگیا
خوب مچلو جُھوم لو اور خاک اُٹھا کر چوم لو لو وہ مکّہ آگیا دیکھو مدینہ آگیا
غم غَلَط ہوجائیں گے بس مُسکراکے دیکھ لو! غم کا مارا درپہ یاشاہِ مدینہ آگیا
پاؤں میں جوتا ارے! محبوب کا کوچہ ہے یہ ہوش کر تُو ہوش کر غافِل! مدینہ آگیا
ہِجر کے ماروں کے دل میں ہُوک سی اٹھنے لگی قافِلے طیبہ چلے حج کا مَہینا آگیا
مجھ کو روتا چھوڑ کر سب قافِلے والے چلے لوٹ کر میں غمزَدہ، شاہِ مدینہ آگیا
موج ہر بپھری ہوئی ہے اب خدارا آئیے! گَردِشِ طوفان میں اپنا سفینہ آگیا
کس قَدَر ہے بامُقدّر وہ مسلماں بھائیو! خواب میں جس کو نظر شاہِ مدینہ آگیا
اِک تبسُّم رَیز ہونٹوں کی جھلک دکھلائیے جاں بَلَب کے اب تو ماتھے پر پسینہ آگیا
ٹل گیا مجھ سے عذاب اور قبر روشن ہوگئی قبر میں میری شَہَنْشاہِ مدینہ آگیا
شافِعِ محشر! مِری امداد کو اب آئیے! حَشر میں بارِ گُنہ لیکر کمینہ آگیا
کیوں نہ رَشک اُس پر کریں پھر یہ جہاں کے تاجدار ہاتھ جسکے عشقِ احمد کا خزینہ آگیا
عرض رَو رَو کر کروں گا جب مدینے جاؤنگا یانبی در پر گنہگار و کمینہ آگیا
آپ کے لطف و کرم سے کہہ اُٹھے عطارؔ کاش! دل مدینہ ہو گیا دل میں مدینہ آگیا