بزمِ تصورات سجی تھی ابھی ابھی نظروں میں مصطفیٰ کی گلی تھی ابھی ابھی
معلوم کر رہے تھےفرشتوں سے جبرائیل کس نے نبی کی نعت پڑھی تھی ابھی ابھی
عرشِ بریں کو اسکی بلندی پہ رشک ہے سر اُن کے آستاں پہ جھکا ہے ابھی ابھی
لو آگیا ہےوہ گنبدِ حضریٰ بھی سامنے میری نظر سے پردہ اٹھا ہےابھی ابھی
قدرت نے پھول اس پہ کرم کے لٹا دیۓ جس نے اُن کا قصیدہ پڑھا ہےابھی ابھی
لو ہو گیا کرم وہ محفل میں آگۓ منکر سےمیری شرط لگی تھی ابھی ابھی
وہ مجھ کو بخشوائیں گے محشر کےدن ریاضؔ ان کے کرم کا مژدہ ملا ہے ابھی ابھی