اشک آنکھوں کو یہی بات بتانے آۓ قافلے طیبہ کو جانےکے زمانے آۓ
ہر طرف دھوم ہے سرکار کے مہمانوں کی راستے طیبہ کے جبریل سجانے آۓ
میں اسی آس پہ بیٹھا ہوں سرراہ گذر جانے کب بادِ صبا مجھ کو بلا نے آۓ
ان کی چوکھٹ پہ پڑا ہوں تو بڑی موج میں ہوں کہہ دو تقدیر کو مجھ کو نہ ستانے آۓ
ان کی چوکھٹ پہ جبیں رکھی ہے اس عزم کے ساتھ آۓ اب دست اجل مجھ کو اٹھانے آۓ
ہے فضا گوش بر آواز کہو واجد سے نعت سرکار کی محفل کو سنانے آۓ