انوار کا وُفور ہے جالی کے اُس طرف اک کائناتِ نور ہے جالی کے اُس طرف
صدیق اور عمر ہی سے پوچھیں کہ کس قدر تسکین ہے سرور ہے جالی کے اُس طرف
جی چاہتا ہے چھو لوں غلافِ مزارِ پاک لیکن پہنچ سے دور ہے، جالی کے اُس طرف
یہ اور بات جانے سے عاجز ہے آدمی کِھنچتا مگر ضرور ہے جالی کے اس طرف
آتی ہے اب بھی وادیِ ایمن سے یہ صدا رشکِ کلیمِ طور ہے جالی کے اس طرف
جی چاہتا تو ہے کہ لپٹ جاؤں مظہری پر تربتِ حضور ہے جالی کے اس طرف