آقا حضور آئیں گ آج نہیں تو کل سہی دل کا سرور پائیں گے آج نہیں تو کل سہی
جلوہء روۓ والضحیٰ نور نظر بنے گا جب دل اپنا جگمگائیں گے آج نہیں تو کل سہی
ان کا کرم ہے چار سو ان کی ہے مجھ کو جستجو اپنا مجھے بنائیں گے آج نہیں تو کل سہی
ان کے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں دل میں وہی سمائیں گے آج نہیں تو کل سہی
نعتوں کے پھول اسی طرح کھلتے رہے جو رات دن دل کو چمن بنائیں گے آج نہیں تو کل سہی
ایسا بھی ہو گا ایک دن ہم اپنی داستانِ غم جا کر انہیں سنائیں گے آج نہیں تو کل سہی
وابستہ کر دے اے ریاضؔ ان سے خدا اگر ہمیں دنیا الگ بسائیں گے آج نہیں تو کل سہی