آپ کا صدقہ ہے دنیا ، زندگی ہے آپ سے وسعت کون و مکاں میں روشنی ہے آپ سے آپ نے رکھی ہے آب و گل پہ بنیاد حیات ابتدائے عالم امکاں ہوئی ہے آپ سے
آپ ہی تقسیم کرتے ہیں فراست کے نجوم عقل_ انسانی ہدایت مانگتی ہے آپ سے
آپ نے روشن کیے ہیں آدمیّت کے چراغ ہر زمانے میں وقار آدمی ہے آپ سے
میرا حُسن بندگی ہے آپ کی سیرت کا فیض میرے سجدوں میں خلوص بندگی ہے آپ سے
آپ سے لیتا ہے سورج بھی متاع روشنی چاند کے بے حس بدن میں دل کشی ہے آپ سے
جب بھی سطح آب سے اُٹھتی ہے رحمت کی گھٹا کون سے خطے پہ برسُوں ، پوچھتی ہے آپ سے
اب تو اشعر کو طلب کر لیجے شہر نُور میں اس فقیر رہ گذر کی لو لگی ہے آپ سے