آج اشک مرے نعت سنائیں تو عجب کیا سن کر وہ مجھے پاس بلائیں تو عجب کیا
دیدار کے قابل تو کہا میری نظر ہے لیکن وہ کبھی خواب میں آئیں تو عجب کیا
حاصل جنہیں آقا کی غلامی کا شرف ہے ٹھوکر سے وہ مُردوں کو جلائیں تو عجب کیا
منہ ڈھانپ کے رکھنا کہ گنہگار بہت ہوں میت کو میری دیکھنے آئیں تو عجب کیا
نہ زادِ سفر ہے نہ کوئی کام بھلے ہیں لیکن مجھے سرکار بلائیں تو عجب کیا
وہ حسنِ دو عالم ہیں ادیب ان کا کرم ہے صحرا میں ا گر پھول کھلائیں تو عجب کیا