آ گیا ہے جس کے بھی دامانِ عالی ہاتھ میں نعمتِ کونین گویا اس نے پا لی ہاتھ میں
دل سے تسکیں کی عجب صورت نکالی ہاتھ میں والہانہ تھام لی روضے کی جالی ہاتھ میں
جس کے سینے میں نہیں عشق حبیب کبریا دولتِ بخشش نہ پاۓ گا وہ خالی ہاتھ میں
ہوں گداۓ مصطفیٰ مفلس نہ تم سمجھو مجھے ہے عقیدت کا خزانہ میرے خالی ہاتھ میں
کوئی بھی محروم در سے آپ کے لوٹا نہیں گوہرِ مقصود دیکھا ہر سوالی ہاتھ میں
کیمیاء سے بڑھ کےکیا ہےجب ہوا مجھ سے سوال خاکِ پاۓ مصطفیٰ میں نے اٹھا لی ہاتھ میں