یاشہیدِ کربلا فریاد ہے نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے
آہ! سِبطِ مصطَفٰے فریاد ہے ہائے! ابنِ مُرتَضیٰ فریاد ہے
بیڑا اَمواجِ تَلاطُم میں پھنسا آہ! میرے ناخدا فریاد ہے
اُس علی اکبر کا صدقہ جو کہ ہیں ہم شَبِیہِ مصطَفٰے فریاد ہے
ہے مری حاجت میں طیبہ میں مروں اے مِرے حاجت روا فریاد ہے
مجھ کو دیوانہ مدینے کا بنا نورِ چشمِ مصطَفٰے فریاد ہے
ساقیِ کوثر کاصدقہ ساقِیا جام، اُلفت کا پِلا فریاد ہے
دشمنوں کی دشمنی سے تنگ ہوں شَہسُوارِ کربلا فریاد ہے
حاسِدوں کا بڑھ گیا حد سے حسد اور سُلوکِ ناروا فریاد ہے
تھر تھراتا ہے کلیجہ خوف سے دُور ہو خوف آ بھی جا فریاد ہے
راستے ہی میں بھٹک کر رہ گیا رہبری کر رہنما فریاد ہے
دے دیاسارے طبیبوں نے جواب بَہرِ زَہرا دے شِفا فریاد ہے
میں نکّما ہوں نکمّے کو نبھا کون ہے تیرے سوا فریاد ہے
نفس و شیطاں کی پکڑ میں آ گیا زورِ عِصیاں بڑھ چلا فریاد ہے
دے علی اصغر کا صدقہ سرورا پیکرِ جود و سخا فریاد ہے
جانکنی میں سختیوں پر سختیاں بڑھ رہی ہیں سیِّدا فریاد ہے
پار اُتار اے راکِبِ دوشِ نبی بحرِ غم سے ناخدا فریاد ہے
بے وفا دنیا کی الفت دور ہو پیکرِ صدق و وفا فریاد ہے
بَہرِ زَینب بے حیائی کا حضور خاتِمہ ہو خاتِمہ فریاد ہے
یا حُسین اسلامی بہنوں کو بنا پیکرِ شرم و حیا فریاد ہے
ہر طرف سے ہے بلاؤں کا ہُجوم دافِعِ کرب و بلا فریاد ہے
صبر کا پیمانہ اب لبریز ہے پیکرِ صبر و رِضا فریاد ہے
مفلس و ناچار و خستہ حال ہوں مخزنِ جُود و عطا فریاد ہے
چھا گئی دل پر خَزاں پیارے حُسین! دے بہارِ جانِفزا فریاد ہے
حُبِّ سادات اے خدا دے واسِطہ اہلِ بیتِ پاک کا فریاد ہے
آفتوں پر آفتیں ہیں المدد سیِّد و سردارِ ما فریاد ہے
دین کی خدمت کا جذبہ دیجئے صدقہ نانا جان کا فریاد ہے
سنّتوں کی ہر طرف آئے بہار صدقہ میرے غوث کا فریاد ہے
چل گئی بادِ مخالف اَلغیاث اے حُسینِ باوفا فریاد ہے
کاش! ہو جاؤں مدینے میں شہید آپ فرما دیں دعا فریاد ہے
بخت کی ہیں جس قدر بھی گتھیاں ساری سُلجھا دو شہا فریاد ہے
کربلا کی حاضِری ہو پھر نصیب بختِ خوابیدہ جگا فریاد ہے
حال ہے بے حال شاہِ کربلا آپ کے عطّارؔ کا فریاد ہے