سلطانِ حیاء جامعِ قرآن کی باتیں ہم کیوں نہ کریں حضرتِ عثمان کی باتیں
مریم کے اُسی نوری بشر کو بھی سنا دو دو نور سمیٹے ہوئے انسان کی باتیں
عنوان مجالس کا حیاؤں کو بنا کر قدسی بھی کیا کرتے ہیں عثمان کی باتیں
مت چھیڑ کسی دشمنِ عثمان کے قصے مت کر مرے آگے کسی بے جان کی باتیں
اُن کا تو فقط رومہ ہی جنت کا سبب ہے ہیں تیرے مرے واسطے میزان کی باتیں
دو ہجرتیں دو نور بھی رضواں کا سبب بھی دکھلاؤ کسی اور میں اِس شان کی باتیں
ہر اک کے مقدر میں کہاں مدحتِ عثمان ایمان کی باتیں ہیں یہ ایمان کی باتیں
عثمان ہے وہ جس کے ہر اک قطرہِ خوں نے قرآن سے کیں لذتِ ایمان کی باتیں
اولادِ علی جس کی محافظ ہو پھر اس کو نقصان نہ دیں گی کسی مروان کی باتیں
دامادِ پیمبر پہ زباں کھولنے والے ایسی تو نہیں ہوتیں مسلمان کی باتیں
چل چھوڑ تبسم کو تبسم کی غزل کو موڑے گا تو کیسے بھلا رحمٰن کی باتیں