خدا کے دیں کا ناخدا ہر ابتداء کی ابتداء کرم کی انتہا حسینؑ ہے
کرے جو کوئی ہمسری کسی کی کیا مجال ہے جہاں میں ہر لحاظ سے حسینؑ بے مثال ہے یہ ہو چکا ہے فیصلہ نہ کوئی دوسرا خدا نہ کوئی دوسرا حسینؑ ہے
کرو گے گر مخالفت غمِ حسینؑ کی یہاں وہ حشر ہوگا حشر میں کہ الحفیظ و الاماں جہاں بھی چھپنے جاؤ گے کہیں پہ بچ نہ پاؤ گے کہ ہر جگہ میرا حسینؑ ہے
قضا کے بعد پھر مجھے نئی حیات مل گئی فشار سے عذاب سے مجھے نجات مل گۓ سوال جب کیا گیا ہے کون تیرا رہنما تو مَیں نے کہہ دیا حسینؑ ہے
ہے جس کی فکر کربلا وہ دماغ ہے یہ پنجتن کی انجمن کا پانچواں چراغ ہے حسنؑ کا پہلا ہمسفر علیؑ کا دوسرا پسر امام تیسرا حسینؑ ہے
اسیرِ شام پر نگاہ کی تو حرؑ بنا دیا جومررہے تھے اُن کو زندگی کا گر سکھادیا حسینؑ ہے حیات گر حسینؑ عظمتوں کا گھر عظیم رہنما حسینؑ ہے
میاں سشتِ نینوا اُلٹنے فوجِ اشقیا بڑھا جو شاہِؑ کربلا اُٹھا کہ تیغِ لافتی لگی جو سر اُتارنے کہا یہ ذوالفقارنے غضب کا سورما حسینؑ ہے
ہدایتِ حسینؑ پر عمل کرو حسینیو رہیں گۓ ہم بہشت میں یقیں رکھو حسینیو قبول ہوگی ہردعا کسی سے کیوں ڈریں بھلا ہمارا واسطہ حسینؑ ہے
شہیدِ کربلا کا غم جسے بھی ناگوار ہے وہ بدعمل ہے بد نسب اسی پہ بیشمار ارے او دشمنِ عزا تو مر ذرا لحد میں جا پتا چلے گا کیا حسینؑ ہے
سُرور گوہرؔ ہنر ہوا یہ خواب دیکھ کر سجے ہوۓ ہیں خلد میں تمام مومنوں کے گھر نشانِ غم ہے جلوہ گر ہر آدمی کے سینے پر ہر ایک لب پہ یا حسینؑ ہے