Tujh Se Kya Mukhfi Mere Parwardigar

تجھ سے کیا مخفی مرے پروردگار ہے مری یہ پیش گفتار اعتذار



نذر کرنے کے لۓ تیرے حضور کچھ نہیں لایا ترا مدحت گزار



ہے خس و خاشاک کا انبار یہ تیرے شایاں کچھ نہیں اے کردگار



میرے قحط فکر کا تجھ کو ہے علم ؟ میری کم کوشی ہے تجھ پر آشکار



جو غزل سے بچ رہی تھی اہلیت اُس پہ کیا ؟ سعئ ثنا کا انحصار



صورتِ غربال یہ چھلنی حروف کیا سنبھالیں تیری موج نور بار



ہے عیاں آشفتگی مفہوم کی طرز سے ظاہر ہے لفظوں کا فشار



تیری مدحت کے لۓ تیرہ جبیں کلک ہے روشن ورق سے شرمسار



ہو رہِ اظہار میں یہ سرخرو منزل مدحت میں ہو یہ کامگار



بخش مجھ بے برگ کرتُو غیب سے لحنِ نور افروز و کلک زر نگار



خاک سے ہوکیا تری حمد و ثنا عبد سے کیے ہو وصفِ کردگار




Get it on Google Play



ہے قلم چُپ حسرتِ اظہار سے سادہ صفحہ ہے تاسّف درکنار



عمر ہے بےرنگ بے بنیاد عکس بے نتیجہ ، بے حقیقت ، بے مدار



زندگی کے منتشر انجام پر کیا کرے خس طبع یہ غفلت شعار



کچھ سمجھ آتا نہیں مجھ گنگ کو کیا لکھوں؟ کیسے لکھوں؟ پروردگار!



جاں خطاؤں پرہی جس کی اساس جسم عصیاں پر رہا جس کا مدار



سوچ ہے مفلوج ہیں ماؤف لفظ کلک ہے شرمندہ کاغذ شرمسار



کون قطرے ذرے تارے گِن سکے کیسے ہوگا تیرے وصفوں کا شمار؟



ایک گلدستے میں سمٹے کس طرح وصف گر سینے کے جذبوں کی بہار



شمع تشویق و چراغ حب کے گرد چاہۓ تھا طوف جو پروانہ وار



اس وفور جذب کے اظہار کی طرح اب ہوتی نہیں ہے استوار



مضمحل اعصاب کی شوریدگی کیا تراشے طرز کوئی پائیدار



تیری لحظہ لحظہ بڑھتی شان سے ہے مری کوتاہی فن شرمسار



میں ہمہ خس طبع تیری ذات پاک ذی وقر' ذی مرتبہ' ذی افتخار



کھرب ہا پہلو ترے، اے حُسن کل! پہلو ہر اک وصف کے ہیں بے شمار



معنی و مطلب تری ہر شان کے بے حدود و بے صغور و بے کنار



ربنا ! مقبول ہو بین السطور کا ندامت زَا سکوتِ اعتذار



حرف کوئی بھی ترے شایانِ شاں لا نہیں پایا ہے یہ نا کردہ کار



یہ مری سعیِ شکستہ ہو قبول ہو یہ ماندہ لہجہ و لب کامگار



تُو نگہباں جیسے دنیا میں رہا آخرت میں بھی تُو رہنا پاسدار



تجھ سے یہ عاصی ہے دل سے عفوخواہ اور مہر و عافیت کا خواستگار



ایک ہی خواہش ہے اے بارالہ! دین و دنیا میں رہوں میں کامگار



ذہن ، ترتیب توازن یاب ہو دور ہو اعصاب و نیت کا فشار



تیرے در پرعفو کا طالب ہوں میں میں ہمہ عجز و سراپا انکسار



حمد کے آداب سے نا آشنا لا ابالی میں اجڈ، جاہل، گنوار



مصرع تراک بھی کب لکھا گیا؟ لاکھ اڑایا لوحِ کاغذ پر غبار



بھربھی مٹی سے یہ بے صرفہ لفظ کیا بنائیں نور کے نقش و نگار



خاسر و خائن یونہی بیکار میں میں گواہ بیٹھا حیاتِ مستعار



جانتا ہوں میں ترے قابل نہیں پھر بھی ہوں تجھ سے کرم کا خواستگار



عفو کا رستہ کوئی راہ نجات چاروں جانب ہیں گنہ کے کوہسار



حبسِ دل میں بادِ بخشش کی چلے بختِجاں ہوں مغفرت کے مرغزار



زنگ اتر جاۓ ریا و مکر کا روح کا آئینہ ہو صاف آب دار



پا رہا ہوں بارکس دربار میں اپنے سر لادے گنہ کا کوہسار



صدقۃ حضرت محمد مصطفیٰ جوتری تخلیق کا ہے شاہکار



غایت کُن ' حاصل امکان و ہست فخرِ موجودات وہ عالی وقار



اسے خوشا! تکرار اس کے نام کی جو زبانوں پہ نہ ذہنوں پر ہے بار



نام ہے کیسا تسلسل آفریں ورد ہے کیا جانفرا تسبیح دار



ذکر ہے گردان آمادہ یہی کرتے جائیں ذکر اس کا بے شمار



جیبھ تھکتی ہی نہیں اس نام سے ورد اسمِ ذات ہے کیا خوشگوار



طالب اس کی دید کا ہر دیدہور ذاکر اس کے اسم کا ہر ترس کار



جسؐ کا نام آتے مہک اٹھے ورق دھیان جسؐ کا رشک صد خلد بہار



گفتگو کیا کم ہو اسؐ کی شان کی تذکرے میں اسؐ کے کیا ہو اختصار؟



اس کی ذات اس کی رسالت اس کے وصف بے حدود و بے کنار و بے شمار



اس کی ختم المرسلینی کو دوام تا قیامت اس نبیؐ کا اقتدار



آپؐ کے اصحاب تاروں کی مثال آن دار و جان دار و شان دار



بڑھ کے وہ ماں باپ سے اولاد سے امتی ایک ایک اس کا جانثار



منفرد فدویت و ایثار میں خدمت و صدق و صا میں نامدار



تھام اپنے لطف کی آغوش میں اے رحیم اے چارہ گر اے چارہ کار



فنہ و شر میں نظر آۓ مجھے خیر و خوبی کا کوئی اجلا دیار



حیف بڑھتی زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے گناہوں کا ابھار



وحشتِ شوریدگی پاۓ سکوں ہو سکینت یاب جاں کا انتشار



عافیت اسلوب' خیر انجام ہو یہ دل وحشی یہ معصیت سوار



روز و شب ہوں خیر خواہ خیر مند ختم ہو اس زندگی کا اضطرار



اس جہاں میں تو ذرا ممکن نہیں سعی ہو مری ثنا کی کامگار



کیا ترے شایان شاں اک مدح بھی رکھی جا سکتی ہے جنت پر ادھار



ہے دعا یہ ہی یہی ہے التجا عافیت اسلوب ہو انجام کار



اپنے دامانِ محبت میں سمیٹ منتشر ہوں اے مرے پروردگار



ہوں توازن یاب واماندہ حسیں چشمِ رحمت مجھ پہ ہو اے کردگار!



آ گیا ہے جو خلل اعصاب میں کون سمجھے گا مرے آمرزگار!



انتشار افکار کا ہو راست رو آہو مرا ماحول ذہن اب سازگار



دہر ہو برزخ ہو عقبیٰ ہو فقط ہے تری رحمت پہ اپنا انحصار



اولین و آخریں امید تُو ہے ترے الطاف پہ دارومدار



ایک دو پل کے سہارے دوسرے ہے ترا ہی آسرا بس پا ئیدار



خوش گماں ہیں تیری رحمت پر بہت ہم کو کرنا کامیاب و کامگار



تو نے آسودہ مجھے دکھا سدا آخرت کا بھی نہ ہو محسوس بار



ہو دعاۓ رفتگاں ہمرہ مرے میں نیاگانِ کہن کا پاؤں پیار



ہو ازالہ اربوں جرموں کا مرے کام جو اچھے ہوۓ دو تین چار



تیری رحمت سے ہوں آساں منزل بھول بن جائیں مرے رستوں کے خار



ہو نہ دل مصلوب اس آشوب میں مجھ کو ہر لمحہ نہ ہو مانندِ دار



ربنا سبحان ربی العظیم سےہوں ہم آہنگ میرے دل کےتار



عرصۃ محشر میں آسودہ رہے تیرے حب داروں کا یہ خدمت گزار



حرف بخشش کی ملے مجھ کو نوید مغفرت پاۓ ترا مدحت نگار



صف بہ صف اس کی خطائیں ہیں کرم ہیں گنہ اس کے قطار اندر قطار



بےکراں فہرست اس کے جرم اس کے عیبوں کا نہیں کوئی شمار



خوبیاں گر ایک دو ہوں بھی تو وہ ہے ریا و مصلحت سے داغدار



واۓ نادانی! ہمیشہ ہی رہی زندگی جرم و گنہ سے ہمکنار



تیری طاعت میں نہیں گزری حیات رائیگاں گزرے سبھی لیل و نہار



داغ سھبے دور ہوں شاہا کرم! نامۃ اعمال میں آۓ نکھار



تیرے دیں پر ہو تصدیق زندگی جان ہوتیرے صحیفے پر نثار



پاؤں تیری بندگی میں سر خوشی تری طاعت سے ملے مجھ کو وقار



پھول بن جائیں ترے اکرام سے ہیں جودامن میں گناہوں کےشرار



بےبسی کی چُپ نہ جاۓ رئیگاں بےاثر جاۓ نہ لفظوں کی پکار



زندگی بھر تو نے رکھا کامراں آخرت میں بھی رہوں میں کامگار



رحم ! اے بینندۃ مافی الصدّور رحم، ہم پر رحم اے پرسردگار!



تیری رحمت سے ہو اطمینان بخش ساعتِ پایانِ عمرِ مستعار



ہو مری شرمندہ چُپ' حمد آشنا خالی صفحہ ہو گلستاں درکنار



تو اگر چاہے تو یہ دیوانِ حمد ٹھہرے الفت حاطروں میں یادگار



اختتام اس مصرع پر ہو حمد کا اعتذار و اعتذار و اعتذار



Get it on Google Play

midhah-logo-grey© 2025 Midhah