پہلے پہلے تو وہ مٹی میں سُلا دیتا ہے اور پھر آپ ہی مُردے کو جِلا دیتا ہے
کام بِگڑے مِرا اللّٰہ بنا دیتا ہے راہ گُم کردہ کو رستے کا پتا دیتا ہے
پہلے کرتا ہے روانہ کسی بیماری کو اور بیمار کو پھر مولا شِفا دیتا ہے
گلسِتانوں کو کبھی روپ خزاں کا دے کر خوش نما پھول بھی جاڑے میں کِھلا دیتا ہے
بے بصَر کو وہ بصارت کا خزانہ بخشے بے زبانوں کو خدا رزقِ نَوا دیتا ہے
سلسلہ ہاٸے گُنہ پر کرَمِ ناز و نِعَم یہ وہ بخشش ہے جو بندے کو خُدا دیتا ہے
آدمیّت کو شرَف یاب کرے تو ازہر اُمّتی مرسَلِ آخر کا بنا دیتا ہے