نورِ خدا میری بےبسی میں میری ہرخوشی میں بس تیرا نام پکارا ہے رحیم تُو ہے کریم تُو ہمیں تیرا ہی ہے سہارا
مولیٰ تیرے سوا میرا کون یہاں تیری رحمت کا طالب ہے سارا جہان
نورِ خدا تُو ہے کہاں بندہ تیرا ہے گمشدہ
میری خطا انکا یہ ہے صلہ ان خطاؤں کی دینا سزا تیری ہی رحمت ہے اک آسرا ہوگا وہ جو ہوگا تیری رضا
مایوس ہے مجبور ہے ہمیں غم نے گھیرا ہوا ہے جو دور تھا تجھ سے کبھی وہ اب تیرا ہی ہوا ہے
مولیٰ سارے جہاں میں حکومت تیری سارے بے بس ہوۓ ایسی طاقت تیری
نورِ خدا تُو ہے کہاں بندہ تیرا ہے گمشدہ
تُو ہی ہے اول ہے آخر بھی تُو مولیٰ سب کچھ ہے فانی یہاں دنیا کی رنگت سے دل جوڑ کر بھولا ہر پل میں تجھ کو خدا
تیری شان جلا جلال ھو ہمیں اس قدر نہ سزا دے تیری رحمت ہے چار سُو ہم پہ کرم فرما دے
مولیٰ ماؤں سے بڑھ کر محبت تیری میں خطاکار ہوں یہ ہے فطرت میری
نورِ خدا تُو ہے کہاں بندہ تیرا ہے گمشدہ