زمیں پہ اترے جو انوار لامکاں والے اڑان بھول گۓ اپنی آسماں والے
جو چاہیں کہہ لیں قیاسات ہیں غلط سب کے کمان سے ہی نہیں نکلے دو کماں والے
مقام لاکھ ہوں تسکین قلب و جاں کےلۓ نظارے اور ہیں طیبہ کے گلستاں والے
مکاں میں آتو گۓ نور لامکاں کب سے مگر چھپے نہیں، انداز لامکاں والے
وہ شہر علم ہو تو امیت کے پردےمیں تمہارےسامنے گونگے ہیں سب زباں والے
زمیں والوں کو کیا چل سکے پتہ ان کا نہ پہنچےگرد کو بھی جن کی آسماں والے
مدینہ آخری منزل ہے حق شناسوں کی یہیں ٹہرتے ہیں صدیوں سے کارواں والے