وہ شمع اجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میں اک روز چمکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں
گر ارض و سما کی محفل میں '' لولاک لما'' کا شور نہ ہو یہ رنگ نہ ہو گلزاروں میں، یہ نور نہ ہو سیاروں میں
جو فلسفیوں سے کھل نہ سکا جو نکتہ وروں سے حل نہ ہوا وہ راز اک کملی والے نے بتلا دیا چند اشاروں میں
بوبکر و عمر عثمان و علی ہیں کرنیں ایک ہی مشعل کی ہم مرتبہ ہیں یارانِ نبی کچھ فرق نہیں ان چاروں میں
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکان فلسفہ سے ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سپاروں میں