میرے کملی والے کی شان ہی نرالی ہے دوجہاں کے داتا ہیں سارا جگ سوالی ہے
خلد جس کو کہتے ہیں میری دیکھی بھالی ہے سبز سبز گنبد ہے اور سنہری جالی ہے
چاند کی طرح ان کو ہم کہیں تو مجرم ہیں کیونکہ ان کی چوکھٹ پر چاند خود سوالی ہے
چھاؤں مہکی مہکی ہے دھوپ ٹھنڈی ٹھنڈی ہے شہرِ مصطفیٰ تیری بات ہی نرالی ہے
وہ بلال حبشی ہوں یا اویسِ قرنی ہوں ان پہ مرنے والوں کی ہر ادا نرالی ہے
ہر طرف مدینے میں بھیڑ ہے فقیروں کی ایک دینے والا ہے سارا جگ سوالی ہے
ہم گناہ گاروں کو رب سے بخشوا لیں گے ان کے رب نے کب ان کی کوئی بات ٹالی ہے