کن کا حاکم کردیا اللہ نے سرکار کو کام شاخوں سے لیا ہے آپ نے تلوار کا
کچھ عرب پر ہی نہیں موقوف اے شاہِ جہاں لوہا مانا ایک عالم نے تری تلوار کا
کاٹ کر یہ خود سر میں گھس کے بھیجا چاٹ لے کاٹ ایسا ہے تمہاری کاٹھ کی تلوار کا
اس کنارے ہم کھڑے ہیں پاٹ ایسا دَھار یہ المدد اے ناخدا ہے قِصّہ اپنے پار کا
رَبِّ سَلِّم کی دُعا سے پار بیڑا کیجئے راہ ہے تلوار پر نیچے ہے دریا نار کا
تو ہے وہ شیریں دَہن کھاری کنویں شیریں ہوئے ان کو کافی ہوگیا آبِ دَہن اِک بار کا
جس نے جو مانگا وہ پایا اور بے مانگے دیا پاک منہ پر حرف آیا ہی نہیں اِنکار کا
دل میں گھر کرتا ہے اَعدا کے ترا شیریں سخن ہے میرے شیریں سخن شہرہ تری ُگفتار
ظلمتِ مرقد کا اَندیشہ ہو کیوں نوریؔ مجھے قلب میں ہے جب مرے جلوہ جمالِ یار کا