جس طرف چشم محمد کے اشارے ہو گۓ جتنے ذرے سامنےآۓ ستارے ہو گۓ
جب کبھی عشق محمد کی عنایت ہوگئی میرے آنسو کوثر و زم زم کے دھارے ہو گۓ
موجۃ طوفان میں جب نام محمد لے لیا ڈوبتی کشتی کے تنکے ہی سہارے ہو گۓ
یا محمد آپ کی نظروں کا یہ اعجازہے جس طرف نطریں اُٹھائیں وہ سب تمہارے ہو گۓ
میں ہوں اور یادِ مدینہ اور ہیں تنہائیاں اپنے بیگانے سبھی مجھ سے کنارے ہو گۓ
اپنی کملی کاذرہ سایہ عنایت ہو مجھے دل کے دشمن یا محمد سے پیارے ہو گۓ