بختِ سیاہ جب درِ عالی پہ رکھ دِیا سُورج اُنھوں نے دستِ سوالی پہ رکھ دیا
آنکھیں بکھیر آیا ہُوں روضے کے ہر طرف لیکن خیال روضے کی جالی پہ رکھ دِیا
لبریز کر گیا مجھے کون اپنے پیار سے یہ کِس نے ہونٹ دل کی پیالی پہ رکھ دِیا
مانگے تھے مَیں نے آپ سے رحمت کے چند پھُول سارا چمن دُعاؤں کی ڈالی پہ رکھ دِیا
مُجھ کو بٹھا یا جانبِ ساحل کی ناؤ پر بارِ گُناہ ڈُوبنے والی پہ رکھ دِیا
لِکھنے چلا جو نعت ، تو میرے حضور نے لفظوں کا ڈھیر ذہن کی تھالی پہ رکھ دِیا
آہنگِ نَو میں نعتِ مظفّر نہ کیوں کہے کھِلتا شعور خُشک خیالی پہ رکھ دِیا