دَرْد اپنا دے اس قدر یارب نہ پڑے چین عمر بھر یارب
میری آنکھوں کو دے وہ بینائی تو ہی آئے مجھے نظر یارب
وِرد میرا ہو تیرا کلمۂ پاک جب کہ دنیا سے ہو سفر یارب
شجرِ نعت دِل میں بویا ہے جلد اس میں لگا ثمر یارب
تیرے محبوب کا میں واصف ہوں دے زباں میں مری اَثر یارب
بطفیلِ رسولِ ہر دو سرا ساتھ میرے رہے ظفر یارب
تیری رحمت جو میرے ساتھ رہے مجھ کو کس کا ہو پھر خطر یارب
ایسا مجھ کو ُگما دے اُلفت میں نہ رہے اپنی کچھ خبر یارب
دیکھنے کے لیے مجھے ترسے عمر بھر میری چشمِ تر یارب
جان نکلے تو اس طرح نکلے تیرے دَر پر ہو میرا سر یارب
قبر میں اور جاں کنی کے وقت جب ہو حالت مری دِگر یارب
سختیوں سے مجھے بچا لینا رکھنا رحمت کی تو نظر یارب
ایسی دے میرے دل کو اپنی تلاش مجھ کو مل جائے تیرا گھر یارب
آستانے کا اپنے رکھ منگتا نہ پھرا مجھ کو دَربدر یارب
میں نے پھیلایا دامن مقصود بھردے رحمت کے تو گہر یارب
دِلِ وِیراں کو نور سے بھردے کہ ہو آباد یہ کھنڈر یارب
عرش اس کو کہوں کہ بیت اللہ میرے دل میں ہے تیرا گھر یارب
نام کو تیرے رٹتے رٹتے روز شام سے میں کروں سحر یارب
میرے سینے کو اپنی اُلفت سے بطفیل حبیب بھر یارب
ذَرَّہ ذَرَّہ سے آشکارا ہے تو کسی جا نہیں مگر یارب
تیرا جلوہ کہاں نہیں موجود سب کے دل میں ہے تیر اگھر یارب
نَحْنُ اَقْرَب سے ُکھل گیا کہ تو ہے رگِ جاں سے قریب تر یارب
تیری تحمید کرتے ہیں ہر دم مور و مار و شجر حجر یارب
کرتے ہیں صبح و شام لیل و نہار تیری تسبیح خشک و تر یارب
میرے جرم و قصور پر تو نہ جا اپنی رحمت پہ کر نظر یارب
نہ ٹھکانہ مرا لگے گا کہیں تو نے چھوڑا مجھے اگر یارب
اپنے محبوب کا مجھے واصف رکھ تو رحمت سے عمر بھر یارب
اُڑ کے پہنچوں میں شہر طیبہ میں میرے لگ جائیں ایسے پر یارب
یوں اُٹھوں قبر سے دَرَخشاں رُو جیسے نکلا کوئی قمر یارب
میرے پیارے تیرے حبیب جنہیں تو نے بلوایا عرش پر یارب
اُن کا اور اُن کی آل کا صدقہ خاتمہ تو بخیر کر یارب
میری اولاد اور مری بہنیں اور مرے مادَر و پدر یارب
جملہ اَحباب اور سب اَہل سنن کل پہ رحمت کی رکھ نظر یارب
دشمنوں پر طفیل غوثِ وَریٰ میرے مرشد کو دے ظفر یارب
میرے اُستاد تھے حسن مرحوم نور سے اُن کی قبر بھر یارب
اِتحاد ایسا سنیوں میں دے کہ رہیں شیر اور شکر یارب
ذِکر محبوب کی یہ محفل ہے اس میں حاضر ہے جو بشر یارب
مرد و عورت گدا غریب و امیر سب کی پوری مرادیں کر یارب
نیک کاموں کی ان کو دے توفیق کر عطا سب کو زور و زَر یارب
جو ہیں کم رِزْق مفلس و محتاج رِزْق دے ان کو پیٹ بھر یارب
لاوَلد کی مراد پوری کر نیک بیٹوں سے گود بھر یارب
بانیِ مجلسِ مبارک کا رہے ٹھنڈا دِل و جگر یارب
جو کہ جلتے ہیں ذکر مولد سے کر عطا ان کو تو سقر یارب
نیچری و وہابی و رفاض قہر کی ان پہ کر نظر یارب
اور جتنے ہیں دشمن اِسلام جلد دوزخ میں ان کو بھر یارب
مسخ کردے کہ اُن کی ہوجائے صورت و صوت مثل خر یارب
دے یہ توفیق تیرے اَعدا سے اہلسنّت کریں حذر یارب
زیر ہر دَم رہیں تیرے دشمن دِین تیرا رہے زَبر یارب
قادِری ہے جمیلؔ اے غفار سب گنہ اس کے عفو کر یارب